Responsive Menu
Add more content here...

قرآن و سنت کا نظام


قرآن و سنت کا نظام ہو گا تو صرف مسلمانوں کا ہی نہیں‘ غیر مسلموں کا ہی نہیں‘ چرندوں پرندوں وغیرہ کا بھی بھلا ہو گا۔
قرآن و سنت کا نظام ہو گا تو کوئی شہری روٹی‘ کپڑا‘ مکان‘ تعلیم اور علاج جیسی بنیادی ضروریات سے محروم نہ رہے گا۔ کفالتِ عامہ کے پروگرام کے تحت بیواؤں‘ یتیموں‘ معذوروں وغیرہ کی بنیادی ضروریات کی فراہمی بذمہ حکومت ہو گی۔ پوری مملکت میں ایک بھی گداگر نظر نہیں آئے گا۔
قرآن و سنت کا نظام ہو گا تو ہر وہ معاشی عمل جو فرد یا معاشرہ کیلئے نقصان د ہ ہو گا ممنوع قرار پائے گا۔ اس سے ملاوٹ‘ سمگلنگ‘ چور بازاری‘ لاٹری‘ جوا‘ سٹہ‘ ارتکازِ دولت‘ حکومتی بے جا اخراجات‘ اسراف و تبذیر‘ لوٹ کھسوٹ وغیرہ سب ناپید ہوں گے۔
قرآن و سنت کا نظام ہو گا تو زکوٰۃ و صدقات‘ عشر‘ قومی زمینوں‘ صنعتوں اور کاروباری منصوبوں کی آمدنی کے علاوہ کوئی ٹیکس وصول نہیں کیا جائے گا۔ آدم کی اولاد سفارش‘ بدعنوانی‘ رشوت‘ استحصال وغیرہ سے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے نجات پا جائے گی۔
قرآن و سنت کا نظام ہو گا تو کوئی بھی مزارع بنجر زمین کی معمولی چار دیواری کر کے (Demarcation)اسے آباد کرلے‘ وہ زمین اسی کی ہو گی۔
قرآن و سنت کا نظام ہو گا تو ایسی زمین جو تین سال تک زیرِ کاشت نہ لائی گئی ہو بحقِ حکومت ہو کر بے زمین کاشتکاروں کو الاٹ ہو گی۔
قرآن و سنت کا نظام ہو گا تو زکوٰۃ و صدقات کی ادائیگی‘ انفاق فی سبیل اللہ اور رفاہی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے سے روپیہ گردش میں رہے گا۔ رفاہی اداروں‘ تربیت گاہوں‘ مدرسوں‘ اسکولوں‘ ہسپتالوں‘ سڑکوں وغیرہ کا جال بچھ جائے گا۔
قرآن و سنت کا نظام ہو گا تو مزدور کی مزدوری پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا ہو گی۔ ہر ملازم کو تنخواہ کی ادائیگی متعلقہ مہینے کی آخری تاریخ کو ملے گی۔
قرآن و سنت کا نظام ہو گا تو اسلامی قانونِ وراثت کے ٹھیک ٹھیک نافذ ہونے سے بیٹیوں اور عورتوں کے حصہ کو کوئی دوسرا غصب نہیں کر سکے گا۔ احساسِ ملکیت عورتوں کو عزتِ نفس سے نوازے گا۔
قرآن و سنت کا نظام ہو گا تو عورت کا دائرۂ کار اس کا گھر ہو گا۔ اس پر وہ وقت نہیں آنے دیا جائے گا کہ اسے حصولِ معاش میںگھر سے باہر نکلنا پڑے۔ مخلوط تعلیم‘ مخلوط محفلیں‘ مخلوط کاروباری اداروں کا وجود نہ رہے گا۔ عورتوں کا گھر سے باہر اگر کوئی حصہ ہو گا تو عورتوں کے تعلیمی اور علاج معالجہ کے اداروں کیلئے۔
قرآن و سنت کا نظام ہو گا تو جہیزاور برات کی موجودہ رسمیں عنقا ہو جائیں گی۔ شادی بیاہ کے موقعہ پر اگر کچھ اخراجات ہوں گے تو ان کا بوجھ لڑکے والوں پر ڈالا جائے گا۔
قرآن و سنت کا نظام ہو گا تو ملکی قیادت اہل و امانت دار افراد کے ہاتھ ہونے کی وجہ سے ملکی نظام عدل و انصاف کا مظہر ہو گا۔ امیر‘ امیر تر اور غریب‘ غریب تر نہیں ہو گا۔ زکوٰۃ و عشر کے نظام کی وجہ سے دولت کا بہاؤ امیر لوگوں سے غرباء تک از خود ہو گا۔
قرآن و سنت کا نظام ہو گا تو انتخابی مہم‘ بے جا مسابقت‘ محاذ آرائی‘ کنبہ پروری‘ بغض‘ حسد وغیرہ کا نام و نشان نہ ہو گا۔ عوامی عہدے سرمائے‘ جاگیر‘ کارخانے کا مالک ہونے کی بنا پر نہیں‘ ایمان و تقویٰ کی بنیاد پر دیئے جائیں گے۔ دور دراز گاؤں میں بیٹھا ایک غریب آدمی بھی عوامی عہدوں پر لگ سکے گا۔
قرآن و سنت کا نظام ہو گا تو کسی خود ساختہ آئین اور قانون کی ممانعت ہو گی۔ محض اجتہاد ہو سکے گا۔
قرآن و سنت کا نظام ہو گا تو سرخ فیتے‘ اہلکاروں کی من مانیوں‘ دفتری مشکلات کا نام و نشان نہ ہو گا۔ وہ کام جو آج سالوں میں نہیں ہوتے‘ ہفتوں میں ہوا کریں گے۔
-16 قرآن و سنت کا نظام ہو گا تو اشیائے ضروریہ کی نہ صرف فراوانی ہو گی‘ نہایت سستے داموں بھی میسر ہونگی۔
قرآن و سنت کا نظام ہو گا تو چونکہ سربراہِ حکومت کو مرکزی مسجد کا خطیب و امام بھی ہونا ہو گا اور اسی طرح مختلف علاقوں کے سربراہوں کو اپنے اپنے دائرۂ اختیار کی مرکزی مسجدوں کے خطباء و امراء ہونے سے پانچ وقت اپنے عوام کے درمیان آنا ہو گا‘ عوام کی شکایات کا ازالہ سونے سے پہلے ہو جایا کرے گا۔ حدود کے نفاذ اور فرائض و حقوق کے متوازن ہونے سے جرائم کی تعداد کم ہو جائے گی۔ لہٰذا قاضیوں اور عدالتوں کی تعداد برائے نام رہ جائے گی۔برسہا برس کے عدالتی اخراجات اور مشکلات نہ رہیں گی۔
قرآن و سنت کا نظام ہو گا تو نظامِ عدل و قسط قائم ہونے سے مجرم سزا پانے کیلئے خود حاضر ہو ا کریں گے حتیٰ کہ جنسِ جرم ہی آہستہ آہستہ ناپید ہو جائے گی۔ انسانیت گواہی دے گی کہ اگر ’’فردوس برروئے زمیں است‘ ہمیں است و ہمیں است و ہمیں است‘‘۔
اہم بات: نظام بدلیں تو کیسے؟ بڑا آسان ہے۔ اپنے ہاتھوں لکھے گئے آئین کی بجائے قرآن و سنت کو آئینِ پاکستان قرار دیا جائے تو خلافتِ راشدہ کی طرح کا دور ہمارے ہاں از خود رائج ہو جائے گا۔ ہماری دنیا ہی نہیں‘ ان شاء اللہ‘ آخرت بھی سنور جائے گی۔